0

آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات

آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات
پیارے اسلامی بھائیو! آج کے بیان کا عنوان ہے”معجزات مصطفیٰﷺ “ آج کے اس بیان میں ہم مکی مدنی مصطفیٰﷺ کے چند مُعْجِزَات سُنیں گے۔ اولاً حضرتِ سید نا جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مشہور مُعْجِزَہ سنیں گے ، اس کے بعد ہم یہ سنیں گے کہ معجزہ کہتے کسے ہیں؟ پھر ہم یہ سنیں گے کہ نبی اکرم، نُورِ مجسم ﷺ جَامِعُ المعجزات ہیں، اُس کے بعد مزید آپ ﷺ کے چند معجزات مثلاً چاند کو دو ٹکڑے کرنا، دُودھ کے ایک ہی پیالے سے 70 صحابہ کرام علیھم الرضوان کا سیر ہو جانا، درخت کا چل کر آنا یہ سب سُننے کی سعادت حاصل کریں گے ۔ اس کے علاوہ ہم یہ بھی سنیں گے کہ آپ ﷺ کا وہ کو نسا معجزہ ہے جو قیامت تک کے لئے ہے۔وغیرہ
ایک عجیب چٹان :
حضرتِ جابر رضی اللہ عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ (غزوہ خندق کے موقع پر) خندق کھودتے وقت ناگہاں ( اچانک) ایک ایسی چٹان نمودار ہو گئی جو کسی سے بھی نہیں ٹوٹی، جب ہم نے بار گاہِ رسالت ﷺمیں یہ ماجرا عرض کیا تو آپﷺاُٹھے تین دن کا فاقہ تھا اور شکم مبارک پر پتھر بندھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے پھاؤڑا مارا تو وہ چٹان ریت کے بُھر بُھرے ٹیلے کی طرح بکھر گئی۔ (بخاری جلد ۲ ص ۵۸۸ خندق) اور ایک روایت یہ ہے کہ آپﷺ نے اُس چٹان پر تین مرتبہ پھاؤڑا مارا، ہر ضرب پر اُس میں سے ایک روشنی نکلتی تھی اور اس روشنی میں آپ صَﷺکے شام و ایران اور یمن کے شہروں کو دیکھ لیا اور ان تینوں ملکوں کے فتح ہونے کی صحابہ

کرام رضی اللہ عنھم کو بشارت دی۔ (زرقانی، ج ۲، ص ۱۰۹،و مدارج ، ج ۲، ص ۱۶۹)۔


حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی دعوت:
حضرتِ جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ فاقوں سے شکم اقدس پر پتھر بندھا ہوا دیکھ کر میرا دل بھر آیا، چنانچہ میں حضورنبی مکرم نورمجسمﷺسے اجازت لے کر اپنے گھر آیا اور اپنی اهلیہ سے کہا کہ میں نے نبی اکرم ، نُورِ مجسمﷺ کو اس قدر شدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے کہ مجھ میں صبر کی تاب نہیں رہی۔ کیا گھر میں کچھ کھانا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ گھر میں ایک صاع ( تقریباً چار کلو) جو کے سوا کچھ بھی نہیں، میں نے کہا کہ تم جلدی سے اُس جو کو پیس کر گوندھ لو، پھر میں نے اپنے گھر کا پلا ہوا ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے اس کی بوٹیاں بنائیں اور زوجہ سے کہا کہ جلد از جلد گوشت اور روٹیاں تیار کر لو، میں نبی آخرزمان ﷺ کو بُلا کر لاتا ہوں، چلتے وقت زوجہ نے کہا: دیکھنا ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علاوہ صرف چند ہی اصحاب کو ساتھ میں لانا کیونکہ کھانا کم ہے، کہیں مجھے رُسوامت کر دینا۔
حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خندق پر آکر آہستگی سے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺایک صاع آٹے کی روٹیاں اور ایک بکری کے بچے کا گوشت میں نے گھر میں تیار کروایا ہے ، لہذا آپ ﷺصِرف چند اشخاص کے ساتھ چل کر تناول فرمالیں، یہ سُن کرﷺ نے فرمایا کہ اے خندق والو ! جابر نے دعوتِ طعام دی ہے، لہذا سب لوگ ان کے گھر پر چل کر کھانا کھالیں، پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں روٹیاں مت پکوانا، چنانچہ جب حضور ﷺ تشریف لائے تو گوندھے ہوئے آٹے میں اپنا لعاب دہن ڈال کر برکت کی دُعا فرمائی اور گوشت کی ہانڈی میں بھی اپنا لعاب دہن ڈال دیا۔ پھر روٹی پکانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ بانڈی چولھے سے نہ اُتاری جائے۔ جب روٹیاں پک گئیں تو حضرتِ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہلیہ نے بانڈی سے گوشت نکال نکال کر دینا شروع کیا، ایک ہزار صحابہ کرام علیھم الرضوان آسودہ ہو کر کھانا کھا لیا مگر گوندھا ہوا آٹا جتنا پہلے تھا اُتنا ہی رہ گیا اور ہانڈی چولھے پر بدستور جوش مارتی رہی۔(بخاری، ج ۲، ص ۵۸۹، غزوہ خندق و سیرت مصطفیﷺ ۳۲۷/۳۲۵ الخصا)
اک دل ہمارا کیا ہے آزار اُس کا کتنا
تم نے تو چلتے پھرتے مر دے جِلا دیے ہیں

شعر کی وضاحت: یارسول اللہ ﷺ ہمارے دل اور اُس کے دُکھ درد کا علاج آپ کے لیے کوئی بڑا کام نہیں ہے ، آپ نے چلتے پھرتے مُردے یعنی جو کفر و شرک کے باعث مردوں سے بھی بدتر تھے ، انہیں بھی ایمان کی روح عطا فرما کر زندہ فرما دیا ہے۔
معجزہ کیا ہے ؟
میرے پیارے مسلمان بھائیو! آپ نے سنا کہ پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفے ، حاجت روا و مشکل کشاﷺکے لُعابِ مُبارک (تھوک مبارک) میں اللہ عزوجل نے کیسی برکت رکھی ہے کہ وہ آٹا کہ جو چند آدمیوں کے لئے بمشکل کافی ہوتا اور وہ سالن کہ جو اتنے آدمیوں کو بھی بمشکل کفایت کرتا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے محبوب، دانائے غیوب، مُنَر عَنِ الْعُيُوبِ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَالِهِ وَسَلَّمَ کے لُعابِ اقدس ڈالنے کی برکت سے ہزار آدمیوں کو ایسا کافی ہوا کہ سب کھا کر سیر ہو گئے مگر وہ آٹا بھی جوں کا توں رہا اور ہانڈی بھی بچ گئی۔ سُبْحَانَ اللهِ عَزَّوَجَل !ہمارے پیارے آقا ، مکی مدنی مُصطفٰے صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ والہ وسلم کی شان و عظمت کی تو کیا ہی بات ہے۔ آپﷺکے ایسے ایسے عظیم الشان معجزات ہیں کہ اُن کے بارے میں سن کر عقلِ اِنسانی دنگ (یعنی حیران رہ جاتی ہے۔ حضور نبی کریم رؤف رحیم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلوة و التسليم کے مزید مُعْجِزَات سننے سے پہلے حصولِ علم دین کی نیت سے معجزہ کی تعریف بھی سماعت فرما لیجئے۔
معجزے کی تعریف:
چنانچہ، مُعْجِزَے کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرتِ علامہ امام جلال الدين عبد الرحمن بن ابو بکر سُيُوطِی شافعی عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللهِ الْكَافِی ارْ شاد فرماتے ہیں: ہمارے نزدیک معجزہ سے مراد ہر وہ خارق عادت امر ( یعنی خلاف عادت کام) ہے جو نبوت کے دعویدار کی سچائی پر دلالت کرنے والا ہو۔ (مدنی آقا کے روشن فیصلے ۲۳) یعنی حضرات انبیائے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلوةُ وَالسَّلَام کی نبوت کی تصدیق کے لئے ان سے کسی ایسی تعجب خیز چیز کا ظاہر ہونا جو عاد تا ظاہر نہ ہوتی ہو ، اسی خلافِ عادت ظاہر ہونے والی چیز کا نام معجزه ہے۔ اور شَيْخُ الْحَدِيث حَضرتِ علامہ – مولانا عبد المصطفی اعظمی ى عَلَيْهِ رَحْمَةُ اللهِ الْغَنِی ارشاد فرماتے ہیں کہ مُعْجِزَہ چونکہ نبی کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ایک خُداوندی نشان ہوا کرتا ہے۔ اس لئے معجزہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ خارقِ عادت (یعنی خلاف عادت) ہو اور ظاہری علل و اسباب (یعنی نظر آنے والی علتوں اور اسباب) اور عادات جاریہ کے بالکل ہی خلاف ہو ، ورنہ ظاہر ہے کہ کفار اس کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو فلاں سبب سے ہوا ہے اور ایسا تو ہمیشہ عاد تاہوا ہی کرتا ہے۔ اس بنا پر معجزہ کے لئے یہ لازمی شرط ہے بلکہ یہ معجزہ کے مفہوم میں داخل ہے کہ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے اسباب عادیہ اور عادات جاریہ کے خلاف ہو اور ظاہری اسباب و علل کے عمل دخل سے بالکل ہی بالا تر ہو ، تا کہ اس کو دیکھ کر کفار یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ چونکہ اس چیز کا کوئی ظاہری سبب بھی نہیں ہے اور عادتا کبھی ایسا ہو ا بھی نہیں کرتا، اس لئے بلا شبہ اس چیز کا کسی شخص سے ظاہر ہونا انسانی طاقتوں سے بالا تر کار نامہ ہے۔ لہذا یقینا یہ شخص اللہ عَزَّوَ جَل کی طرف سے بھی بھیجا ہوا (ہے) اور اُس کا نبی ہے۔ (سیرتِ مصطفے ، ۷۰۹) اسی طرح مؤمن متقی سے اگر کوئی ایسی نادِرُ الوجود و تعجب خیز چیز صادر و ظاہر ہو جائے جو عام طور پر عاد تا نہیں ہوا کرتی تو اس کو ”کرامت “ کہتے ہیں۔ اسی قسم کی چیزیں اگر انبیاء عَلَيْهِمُ الصَّلوةَ وَالسَّلَامُ سے اعلانِ نبوت کرنے سے پہلے ظاہر ہوں تو ارهاص “ اور اعلانِ نبوت کے بعد ہوں تو ”مُعْجِزَہ“ کہلاتی ہیں اور اگر عام مؤمنین سے اس قسم کی چیزوں کا ظہور ہو تو اس کو معونت“ کہتے ہیں اور کسی کافر سے کبھی اس کی خواہش کے مطابق اس قسم کی چیز ظاہر ہو جائے تو اس کو استدراج “ کہا جاتا ہے۔“ کراماتِ صحابہ ، ص ۳۷/۳۶)
جامع المعجزات:
محترم بھائیو ! ہر نبی کا معجزہ چونکہ اس کی نبوت کی دلیل ہوا کرتا ہے، لہذا خداوند عالم جل جلالہ نے ہر نبی کو اس دور کے ماحول اور اس کی اُمت کے مزاجِ عقل و فہم کے مُناسِب مُعْجِزَات سے نوازا۔ مثلاً حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے دَورِ نبوت میں چونکہ جادو اور ساحرانہ کارنامے اپنی ترقی کی اعلیٰ ترین منزل پر پہنچے ہوئے تھے ، اس لئے اللہ عَزَّ وَ جَلَّ نے آپ کو ید بیضا اور عصا“ کے معجزات عطا فرمائے، جن سے آپ نے جادو گروں کے ساحرانہ کارناموں پر اس طرح غلبہ حاصل فرمایا کہ تمام جادو گر سجدہ میں گر پڑے اور آپ کی پر ایمان لائے۔ اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں علمِ طب انتہائی ترقی پر پہنچا ہوا تھا اور اس دور کے طبیبوں یعنی ڈاکٹروں نے بڑے بڑے امراض کا علاج کر کے اپنی فنی مہارت سے تمام انسانوں کو مسحور کر رکھا تھا، اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا دینے اور مردوں کو زندہ کر دینے کا معجزہ عطا فرمایا، جس کو دیکھ کر آپ عَلَيْهِ السَّلام کے دور کے اطباء (یعنی ڈاکٹروں) کے ہوش اُڑ گئے اور وہ حیران و ششدر رہ گئے اور بالآخر انہوں نے ان معجزات کو انسانی کمالات سے بالا تر مان کر آپ کی نبوت کا اقرار کر لیا۔ الغرض اسی طرح ہر نبی کو اس دور کے ماحول کے مطابق اور اس کی قوم کے مزاج اور ان کی طبیعت کے مناسب کسی کو ایک، کسی کو دو، کسی کو اس سے زیادہ معجزات عطا ہوئے ، مگر نبی آخر الزماں، سرورِ کون و مکاں ﷺ چونکہ تمام نبیوں کے بھی نبی ہیں اور آپﷺ کی سیرتِ مقدسہ تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃوالسَّلام کی مقدس زندگیوں کا خلاصہ ہے اور آپ ﷺ کی تعلیم تمام انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصلوۃ والسَّلام کی تعلیمات کا عطر ( نچوڑ ہے اور آپ ﷺ دُنیا میں ایک عالمگیر اور ابدی دین لے کر تشریف لائے تھے اور عالم کائنات میں اولین و آخرین کی تمام اقوام اور ملتیں آپ ﷺ کی مقدس دعوت کی مخاطب تھیں، اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ کو انبیائے سابقین کے تمام معجزات کا مجموعہ بنا دیا اور آپ ﷺ کو قسم قسم کے ایسے بے شمار معجزات سے سرفراز فرمایا جو ہر طبقہ ، ہر گروہ، ہر قوم اور تمام اہل مذاہب کے مزاج عقل و فہم کے لئے ضروری تھے۔ (سیرتِ مصطفیٰﷺ، ص 712 تا 741، ملخصاء منتقطاً) علاوہ ازیں بے شمار ایسے معجزات سے بھی اللہ جل جلالہ نے اپنے آخری پیغمبر ، شفیع محشر ﷺ کو ممتاز فرمایا جو آپ ﷺ کے خصائص کہلاتے ہیں۔ یعنی یہ آپﷺکے وہ کمالات و معجزات ہیں جو کسی نبی ورسول کو نہیں عطا کئے گئے۔ (سیرتِ مصطفے ﷺ ، ص 820 ملخصا) معلوم ہوا کہ میرے آقا، مکی مدنی مُصطفٰےﷺ کی ذات جامعُ الْمُعْجِزَات ہے، تمام انبیاء عَلَيْهِمُ الصَّلوةُ وَالسَّلام کے جملہ کمالات ، تمام محاسن ، جمیع اوصاف اور سارے کے سارے مُعْجِزَات آپ ﷺ کی ذات میں موجود ہیں، بلکہ آپﷺ کو الله عَزَّوَجَلَّ نے بعض ایسے معجزات سے بھی نوازا تھا جو آپ ﷺ کے علاوہ کسی اور نبی میں نہ تھے ، شق القمر (یعنی چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ بھی انہی معجزات میں سے ہے، جن میں پیارے آقا ، مکی مدنی مُصْطَفٰےﷺ یکتا اور منفر د تھے۔ آئیے علم دین حاصل کرنے کی نیت سے مُعْجِزَہ شَقُّ الْقَبر کے بارے میں سنتے ہیں۔(50…)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں