0

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن

دودھ پلانے (رضاعت) کا بیان
مکہ کے معزز لوگوں کا یہ رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو ماں کی گود میں پلتا دیکھنے کے بجائے صحرا میں رہنے والے قبیلوں کے پاس بچپن گزار نے کیلئے بھیجتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دیہات کی خالص غذائیں کھا کر بچوں کے اعضا اور جسم مضبوط ہوں اور ان کی خالص عربی سیکھ کر وہ بھی اس فصاحت و بلاغت سے کلام کرنے والے بن جائیں۔ اسی وجہ سے اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے سپر د کر دیا گیا۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو سعد” سے تھا جو بنی ہوازن کی ایک شاخ تھا، یہ قبیلہ عربیت اور فصاحت میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ حضرت حلیمہ اپنے قبیلے کی خواتین کے ساتھ مکہ میں بچے کو رضاعت پر لینے کیلئے آئیں۔ حضرت حلیمہ کی قسمت کا ستارہ اپنے عروج پر تھا کہ آپ کو دو سال تک دودھ پلانے کی سعادت ان کے حصے میں آئی۔
رسول دودھ پلانے کی برکتیں
بعض روایات کے مطابق بی بی حلیمہ کے علاوہ مزید 6 خوش قسمت خواتین نے آقا کریم ﷺ کو دودھ پلانے کا شرف حاصل کیا، ان تمام عورتوں کو دولت ایمان نصیب ہوئی۔(2) جبکہ حضرت حلیمہ کو دودھ پلانے کی خدمت کا یہ انعام ملا کہ اُن کا پورا گھرانہ دولت ایمان سے مالا مال ہوا۔ حضرت حلیمہ کے شوہر حضرت حارث رضی اللہ عنہ ، صاحبزادے عبداللہ بن حارث اور دو صاحبزادیاں انیسہ بنت حارث اور جدامہ بنت حارث ہیں۔ خدامہ بنت حارث ہی شیما کے نام سے مشہور ہیں جو اللہ کے آخری نبیﷺکی بڑی رضاعی بہن تھیں اور آپ کو گود میں کھلاتی اور لوریاں دیتی تھیں۔(3)
بچپن کے واقعات و برکات
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جب اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لینے کیلئے آپ کے مکان عالیشان پر پہنچیں تو فرماتی ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں ، آپ کے پاس سے خوشبوئیں اُٹھ رہی ہیں ، سبز رنگ کا ریشمی کپڑانیچے بچھا ہوا ہے، پیٹھ کے بل آرام فرمارہے ہیں۔ میں نے آہستہ سے قریب ہو کر اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر آپ کے سینہ مبارک پر ہاتھ رکھا تو آپ مسکرانے لگے ، اپنی سرمگیں آنکھیں کھول دیں اور مجھے دیکھنے لگے ، میں نے محسوس کیا کہ ان آنکھوں سے انوار نکل رہے ہیں اور آسمان کو چھو رہے ہیں۔ بے اختیار ہو کر میں نے آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور آپ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔(4) جب آپ رضی اللہ عنھا دودھ پلانے بیٹھیں تو نبوت کی برکتیں ظاہر ہونے لگیں۔ خدا کی شان کہ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے اس قدر دُودھ بڑھ گیا کہ آپ اور آپ کے رضاعی بھائی عبداللہ بن حارث نے خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا اور دونوں آرام سے سو گئے۔ رسول الله ﷺ اپنی رضاعی والدہ کا صرف ایک طرف سے دودھ پیتے، دوسری طرف سے وہ پلانا بھی چاہتیں تب بھی نوش نہ فرماتے کہ وہ بھائی کا حصہ تھا، یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ عدل و انصاف کا بول بالا کریں گے۔ آپ کی برکت سے حضرت حلیمہ کی لاغر اونٹنی جو دودھ سے خالی تھی اس میں بھی خوب دودھ آگیا۔ حضرت حلیمہ کے شوہر نے اُس کا دودھ دوہا اور دونوں میاں بیوی نے خوب سیر ہو کر دودھ پیا اور وہ رات بڑی راحت و سکون کے ساتھ بسر کی اور رات بھر میٹھی نیند کے مزے لوٹتے رہے۔ جب بیدار ہوئے تو حضرت حلیمہ کے شوہر حارث بن عبد العزیٰ کہنے لگے : حلیمہ ! تم بڑا ہی مبارک بچہ لائی ہو۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ واقعی مجھے بھی یہی اُمید ہے کہ یہ بچہ بڑا بابرکت ہے اور خدا کی رحمت بن کر ہمیں ملا ہے۔ عن قریب ہمارا گھر خیر و برکت سے بھر جائے گا۔(5)
*حضرت حلیمہ فرماتی ہیں کہ (جب ) ہم رسول اللہ ﷺکو لے کر مکہ شریف سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے تو میر اوہی خچر جو پہلے کمزوری کی وجہ سے قافلے والوں سے پیچھے رہ جاتا تھا اب اس قدر تیز چلنے لگا کہ کوئی دوسری سواری اس کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی(6)
رسول اللہ ﷺکی بچپن کی کچھ پیاری ادائیں
اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنہا کے پاس آئے ان کے جانور بڑھنے لگے، ان کی عزت میں اضافہ ہوا اور خیر و برکت نصیب ہونے لگی۔ جب تک آپ وہاں رہے بی بی حلیمہ کا گھر خیر و برکت سے بھرا رہا، دن بدن ان انعامات اور برکات میں اضافہ ہوتا رہا اور وہ خوشحالی کی زندگی بسر کرنے لگے۔ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: دودھ پینے کی عمر میں آپ کی دیکھ بھال میں مجھے بہت آرام تھا۔ آپ دوسرے بچوں کی طرح نہ چیختے چلاتے اور نہ روتے ۔ 2 ماہ کی عمر میں آپ گھٹنوں کے بل چلنے لگے ، 3 ماہ کی عمر میں اٹھ کر کھڑے ہونے لگے ، 4 ماہ کی عمر میں دیوار کے ساتھ ہاتھ رکھ کر ہر طرف چلا کرتے ، 5 ماہ کی عمر میں چلنے پھرنے کی پوری قوت حاصل کر چکے تھے ، 8 ماہ کی عمر میں یوں کلام فرماتے کہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی، 9 ماہ کی عمر میں فصیح باتیں کرنا شروع فرما دیں۔(7) آپ نے اپنی عمر کے ابتدائی حصے میں جو کلام فرمایا وہ اللهُ أَكْبَرَ كَبِيراً وَ الْحَمْدُ لِله كَثِیراً (ترجمہ : اللہ سب سے بڑا ہے اور ہر طرح کی حمد و تعریف اللہ کیلئے ہے) تھا۔ جھولا جھولتے وقت آپ چاند سے باتیں کرتے اور اپنی انگلی سے جس طرف اشارہ فرماتے، چاند اسی طرف جھک جاتا۔(8)
وجود مصطفے کی برکتیں
بی بی حلیمہ رضی اللہ عنھا آپ کی برکتوں کو یوں بیان فرماتی ہیں: میر اقبیلہ ”بنی سعد قحط میں مبتلا تھا، جب میں آپ کو لے کر اپنے قبیلے میں پہنچی تو قحط دور ہو گیا، زمین سر سبز ، درخت پھلدار اور جانور موٹے تازے ہو گئے۔ ایک دن میری پڑوسن مجھ سے بولی: اے حلیمہ ! تیر اگھر ساری رات روشن رہتا ہے ، اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا: یہ روشنی کسی چراغ کی وجہ سے نہیں، بلکہ (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے نورانی چہرے کی وجہ سے ہے۔ میرے پاس 7 بکریاں تھیں، میں نے آپ کا مُبارک ہاتھ ان بکریوں پر پھیرا تو اس کی برکت سے بکریاں اتنا دودھ دینے لگیں کہ ایک دن کا دودھ 40 دن کے لئے کافی ہو جاتا تھا۔ اتنا ہی نہیں میری بکریوں میں بھی اتنی برکت ہوئی کہ سات سے 700 ہو گئیں۔ قبیلے والے ایک دن مجھ سے بولے: ان کی برکتوں سے ہمیں بھی حصہ دو! چنانچہ میں نے ایک تالاب میں آپ کے مبارک پاؤں ڈالے اور قبیلے کی بکریوں کو اس تالاب کا پانی پلایا تو ان بکریوں نے بچے پیدا کئے اور قوم ان کے دودھ سے خوشحال و مالدار ہو گئی۔ آپ کو لڑ کے کھیلنے کے لئے بلاتے تو ارشاد فرماتے: مجھے کھیلنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ آپ میرے بچوں کے ساتھ جنگل جاتے اور بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ایک دن میرا بیٹا مجھ سے بولا: امی جان ! (حضرت) محمد ﷺ بڑی شان والے ہیں، جس جنگل میں جاتے ہیں ہرا بھرا ہو جاتا ہے، دھوپ میں ایک بادل ان پر سایہ کرتا ہے ، ریت پر آپ کے قدم کا نشان نہیں پڑتا، پتھر ان کے پاؤں تلے خمیر (گندھے ہوئے آنے) کی طرح نرم ہو جاتا اور اُس پر قدم کا نشان بن جاتا ہے ، جنگل کے جانور آپ کے قدم چومتے ہیں۔(9)
بنو سعد میں قیام کی مدت اور واپسی
حضرت حلیمہ رضی اللہ عنھا اور ان کا خاندان قدم قدم پر اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکتوں کو دیکھتا رہا، ان سے خوب فیض پاتا رہا اور اپنا مقدر سنوار تارہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو سال مکمل ہو گئے ، حضرت حلیمہ نے آپ کا دودھ چھڑا دیا اور معاہدے کے مطابق آپ کو آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنھا کے پاس لے گئیں، انہوں نے حسب توفیق حضرت حلیمہ کو انعام و اکرام سے نوازا۔ آپ کی برکتیں دیکھ کر حضرت حلیمہ کا دل مچلتا کہ آپ مزید ان کے پاس ان کے قبیلے میں رہیں، عجب اتفاق کہ انہی ایام میں مکہ شریف میں ایک وبائی مرض پھیلا ہو ا تھا۔ حضرت حلیمہ نے وبائی بیماری سے بچانے کیلئے حضرت آمنہ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ حضور کو مزید کچھ مدت کیلئے ان کے قبیلے بھیج دیں۔ یوں حضرت حلیمہ کی دلی مراد پوری ہوئی (یعنی مقصد پورا ہوا) اور ایک بار پھر بی بی آمنہ کے چاند سے ان کا آنگن روشن ہو گیا اور اللہ کے آخری نبی علیہ السلام کے برکت والے وجود کی بدولت ان کا مکان دوبارہ سے رحمتوں اور برکتوں کی کان بن گیا۔ آپ
نوٹ:( یہ مضمون مکتبۃ المدینہ کی اشاعت کردہ کتاب ”اخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سیرت سے لیاہے اگر کہیں حوالہ دیکھنے میں مشکل آرہی ہو تو اس کتاب کا مطالعہ کیا جا سکتاہے )
حوالہ جات
(1)شرح الزرقانی علی المواهب، من خصائصه : 278/1 ماخوذاً
(2)سیرت حلبیہ ، باب ذکر رضاعه وما اتصل به 124/1 ملخصا
(3)طبقاتِ ابن سعد ،1/89
(4)مدارج النبوت، قسم اول، باب اول، بیان حسن خلقت، 19/2 الخضا م
(5)سیرت حلبیہ ، باب ذکر رضاعه وما العمل به 10 / 132 الحضا محم
(6)مدارج النبوت، قسم دوم ، باب اول، 20/2 ملتقطاً
(7)معارج النبوة ، رکن دوم، باب سوم، فصل دوم ، ص 55 تا 56
(8)جمع الجوامع ، حرف الهمزة مع النون، 212/3، حدیث: 8361 فحم
(9)الكلام الاوضح في تفسير الم نشرت ( انوار جمال مصطفى)، ص 107-109 ملخصاء ملتقطاً

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں